زندگی ہو جیسے

اردوناول
از ایمان خان
آخری قسط 13
خان حویلی کے اردگرد چڑیاں چہچہا رہی تھی بہار اپنے جوبن پر تھی ایسے میں بارش نے موسم اور رنگین بنا دیا تھا۔۔۔۔۔۔
لان میں لگے گلاب کے پھولوں پر پڑے بارش کے قطرے ایک خوبصورت منظر پیش کر رہے تھے
پریشے اوپر بالکونی میں کھڑی یہ منظر خالی خالی نظروں سے دیکھ رہی تھی
آج اتنے دن گزرنے کے باوجود بھی ریان کا کچھ پتہ نہیں تھا
اس نے پلٹ کے پریشے کی خبر نہیں لی تھی
پریشے سوچ رہی تھی کہ وہ صرف یہ رشتہ مجبوری کے تحت نبھا رہا ہے
ورنہ اس کے دل میں اگر اس کے لیے کوٸی جذبات ہوتے تو
وہ اسے یہاں سے لے کر جاتا
میں بھی کتنی خوش فہم ہوں وہ تو اس ڈاٸیری والی لڑکی سے محبت کرتا ہے
بے شک وہ لڑکی میں ہوں ریان لیکن میں چاہتی تھی کہ تم میری اصلی شناحت سے محبت کرو
لیکن تم نے ایسا نہیں کیا
وہ خود سے ہمکلام تھی
اور اب بھی تم یہ رشتہ نبھاٶ گے بھی تو صرف مجبوری کے لیے کہ میں تمھاری بیوی ہوں
لیکن ریان مجبوری کے لیے ہی سہی تم آتو جاو یہ لوگ جو مجھے بدکردار سمجھتے ہیں
انھیں بتاو کے میں بدکردار نہیں ہوں
وہ التجاٸیہ انداز میں بڑابڑا رہی تھی
بارش پورے ذور و شور سے برس رہی تھی
پریشے نے دونوں ہتھیلیاں آگے بڑھاٸی بارش کے ننھے ننھے قطرے اس میں گرتے رہے اور یہاں تک کہ اس کی دونوں ہتھیلیاں بھیگ گٸ
ذندگی اس کو ایک ایسے موڑ پر لے آٸی تھی جہاں ہر طرف بدنامی اور رسواٸی ہی تھی
اور اس بدنامی اور رسواٸی سے اسے بس ایک ہی انسان نکال سکتا تھا
وہ تھا ریان
اور ریان نے کب تک آنا تھا
یہ کوٸی نہیں جانتا تھا
❤❤❤❤
ایک گاڑی حویلی کے داخلی دروازے کے عین سامنے آکر رکی
سکیورٹی گارڈ نے آگے بڑھ کر دروازہ کھولا اور گاڑی حویلی کے اندر داخل ہوٸی
گاڑی میں سے ایک خوبرو نوجوان باہر نکلا
اس نے انگلی کے اشارے سے ملازم کو اپنی طرف بلایا
ملازم بھاگ کے اس کی طرف گیا
تمھارے خان صاحب سے ملنا ہے
اس نے دو ٹوک بات کی
میں صاحب سے پوچھ کے آتا ہوں
آپ کا نام
ملازم نے نام پوچھا
کپٹین ریان خان
اس نے اسی انداز میں کہا
تھوڑی ہی دیر بعد ملازم باہر آیا
اور اسے اندر جانے کی اجازت دی
❤❤❤❤
یہ ایک بڑا سا ڈراٸینگ روم تھا جس کی دونوں طرف کی کھڑکیوں پر بڑے بڑے مہنگے پردے لٹک رہےتھے
اور کھڑکیوں کے بالکل ساتھ صوفے پڑے تھے اور درمیان میں ٹیبل
اور بالکل سامنے LCD لگی تھی
کوٸی سوچ نہیں سکتا تھا کہ گاٶں کے ایک گھر میں بھی اتنی آساٸشیں ہو سکتی ہے
وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا بالکل خان صاحب کے پاس کھڑا ہوا
اور انھیں سلام کیا
خان صاحب کے ٹی وی کے چینل بدلتے ہاتھ یکدم ساکت ہوۓ
وہ اٹھ کے کھڑے ہوۓ تو ریان نے دونوں بازو کھول دیا
انہوں نے آگے بڑھ کر ریان کو گلے لگا لیا
وہ ریان سے اس گرم جوشی کی امید نہیں رکھتے تھے
اس لیے تھوڑے حیران بھی تھے
انھوں نے اسے اپنے قریب بٹھایا
آخر تم بھی راستہ بھول ہی گۓ
اور بھول کے یہاں آگۓ
انھوں نے پیار بھرا شکوہ کیا
نہیں نانا جی ایسی بات نہیں بس تھوڑا مصروف تھا
اس نے نارمل سے لہجے میں کہا
تم میں مجھے اپنے بھاٸی کی جھلک دکھتی ہے
انھوں نے محبت سے اسے دیکھا
دادا بھی آپ کو بہت یاد کرتے تھے
اس نے نظریں جھکا دی
مجھے بھی اس بات کا افسوس رہے گا کہ باتوں کو طول دینے کی وجہ سے میرا بھاٸی مجھ سے ملے بغیر ہی دنیا سے چلا گیا
ان کے لہجے میں محبت کی جگہ دکھ در آیا
اگر ہم ذندگی میں ہونے والی چھوٹی چھوٹی باتوں کو انا کا مسٸلہ نہ بناۓ تو
ہماری ذندگی میں بھی یہ پچھتاوے نہ ہو
ریان سوچ کےرہ گیا
وہ اصل میں نانا جی میں پریشے کو لینے آیا تھا
میں چاہتا ہوں کے آپ اب اس کی رخصتی کر دے
وہ مطلب کی بات پر آیا
جواب میں خان صاحب پہلے تو خاموش رہے پھر بولے
ریان میں نے بہت کوشش کی کہ تمھاری امانت میں خیانت نہ کرو لیکن میں شرمندہ ہوں
ساتھ ہی ساری بات اس کے گوش گزار کی
مطلب میرا اندازہ ٹھیک ہے
ریان نے سوچا
آپ میرے سامنے شرمندہ مت ہو نانا جی
خان صاحب نے سر اٹھا کے دیکھا
جی بالکل میرے سامنے نہیں بلکے پریشے کے سامنے شرمندہ ہو
کیونکہ آپ کو غلط فہمی ہوٸی ہے
پریشے بالکل پاکیزہ ہے
وہ میرے ساتھ یعنی اپنے شوہر کے ساتھ تھی اتنے دن
دادا جی سر تھام کر بیٹھ گۓ
انھوں نے کیسے اپنی پاکباز بیٹی پر شک کیا
❤❤❤❤
پریشے اپنے کمرے میں بیڈ کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھی تھی
جب دادا جی نے آرام سے دروازے پر دستک دی
پریشے نے سر اٹھا کر دروازے پر دادا جی کو دیکھا تو حیران رہ گٸ
وہ بہت عرصے بعد اس کے کمرے میں آۓ تھے
پریشے کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی
دادا جی چلتے چلتے اس کے قریب آۓ
اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھا اس نے حیرت سے انھیں دیکھا
کہ یہ چمک دار کیسے ہوا
پریشے تم سے کوٸی ملنے آیا ہے
پریشے نے سوالیہ انداز میں انھیں دیکھا لیکن بولی کچھ نہیں
آٶ تمھیں اس سے ملواٶ
دادا جی نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے پکڑ کر ڈراٸینگ روم تک لے کے گۓ
جیسے ہی انھوں نے دروازے کے اندر قدم رکھا پریشے نے نظر اٹھا کر دیکھا تو
سامنے نظالیہ بیگم بیٹھی تھی اور عین دوسرے صوفے پر ریان بیٹھا تھا پریشےکی خوشی کی انتہا نہ رہی آخر وہ آہی گیا تھا پریشے اپنے دادا کو معاف کردو انھوں نے تمھارا یقین نہیں کیا تھا
میں واقعی ہی شرمندہ ہوں
اور مجھےبھی پریشے پتہ نہیں میں اتنی غافل کیسے ہو گٸ تم تو میری بیٹی تھی میں پھر بھی تم سے بد ظن رہی وہ دونوں واقعی ہی شرمندہ تھے
پریشے کی آنکھیں لبا لب پانیوں سے بھر گٸ اس نے آگے بڑھ کر دادا جی کے ہاتھ تھامے
دادا جی کیوں گناہ گار کر رہے ہیں مجھے آپ دونوں سے مجھے کوٸی گلہ نہیں ہے
اور غلط فہمی کسے نہیں ہوتی
دادا جی نے آگے بڑ کر اسے سینے سے لگا لیا
ہوں تو میں کہہ رہا تھا کہ اگر آپ کی معافیاں تلافیاں ختم ہو گٸ ہو تو مجھ غریب کو بھی بتا دیں کہ میں امی کو رسم کے لیے کب لاٶں اس نے معصوم بنتے ہوۓ کہا
اس کے اس انداز پر پریشے کو ہنسی آگٸ
تمھیں بہت جلدی ہے میری بیٹی کو لے کے جانے کی
پہلے آتے ہی نہیں تھے اب آۓ ہو تو بغیر کھانے کے جانے نہیں دوں گی
نظالیہ بیگم اسے بیٹھا کر خود کھانے کی تیاری کے لیے باہر چلی گٸ
دادا جی کی کوٸی کال آٸی جسے سننے کے لیے وہ کمرے سے باہر چلے گۓ ۔
اب کمرے میں صرف پریشے اور ریان تھے
مجھے علم نہیں تھا کہ تم روتے ہوۓ بھی اتنی ہی پیاری لگتی ہو
اس نے اس کے قریب آتے ہوۓ کہا
پریشے جھنپ کے باہر نکل گٸ
❤❤❤❤❤
آج حویلی میں خوب گہما گہمی تھی آج شامین بیگم رسم کرنے آرہی تھی
پریشے کی خوشی کی کوٸی انتہا نہیں تھی
ابھی بھی وہ کچن میں کھڑی چاۓ کی ٹرالی سیٹ کر رہی تھی
جب پیچھے سے اسے کسی کے کھانسنے کی آواز آٸی
اس نے جیسے ہی پلٹ کر دیکھا
پیچھے ریان کھڑا مسکرا رہا تھا
پانی ملے گا
اس نے مسکرا کر کہا
پریشے کو شرارت سوجھی
نہیں چاۓ ملے گی
ساتھ ہی چاۓ کی ایک پیالی اٹھاٸی اور مٹھی بھر نمک ملا کر پیالی ریان کی طرف بڑھاٸی
ریان نے حیرت سے پہلے پریشے کو پھر پیالی کو دیکھا
یہ لیں
اگر آپ نے اسے پی لیا تو میں اس گھر سے رخصت ہو کر جاٶ گی نہیں تو میری طرف سے انکار اس نے ایک ادا سے کہا
ساتھ ہی منتظر نظروں سے اسے دیکھا
ریان نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے پیالی تھامی
اور گھونٹ گھونٹ کر کے اسے پینے لگا اور پریشے اس کے منہ کے بگڑتے ہوۓ زاویے دیکھ کر ہنستی چلی گٸ
ریان اسے محبت سے دیکھنے لگا
اس ہنسی کے لیے یہ سب تو کم ہے میں اپنی جان بھی دے دوں
پریشے کی ہنسی یکدم غاٸب ہوٸی
ریان ایسی بات دوبارا مت کیجیۓ گا اور ابھی جاٸیں یہاں سے مجھے اور بھی کام ہے
اور ساتھ ہی اسے دھکیل کے باہر نکالا
اور مسکرا کہ پھر سے کام میں مصروف ہو گٸ
❤❤❤❤❤❤
پریشے اور ریان کی شادی کے تمام فنکشنز خوش اصلوبی سے گزر چکے تھے
اور پریشے اب اس کی بیوی بن کے اس کے گھر میں موجود تھی
پری
پری
پریشے کی شادی کو آج چھٹا دن تھا وہ بالکونی میں کھڑی یہ سارا منظر دیکھ رہی تھی
جب ریان اسے پکارتا ہوا آیا
اچھا ہم محترمہ کو ہر جگہ ڈھونڈ چکے ہیں
اور محترمہ یہاں آرام فرما رہی ہیں
وہ اس کے پاس آکر کھڑا ہو گیا
ارے واہ چاۓ پی رہی ہو میں بھی تھک چکا ہوں تمھیں کیسے پتہ چل جاتا ہے
تم واقعی ہی ایک بہت سمجھدار بیوی ہو
اس نے پریشے کی تھوڑی کو نرمی سے چھوا
اور ساتھ ہی پریشے کے ہاتھ میں پکڑا کپ جس میں چاۓ آدھی تھی ادھی چاۓ پریشے پی چکی تھی
اسے لے لیا
کیا بات ہے ریان میں اور بنا لاتی ہوں یہ تو آدھی میں پی چکی ہوں
تب ہی تو لی ہے نا
اس نے چاۓ پیتے ہوۓ شرارت سے کہا
آپ بھی نا پریشے جھنپ گٸ
کیا میں بھی
وہ اس کے قریب آیا
آپ بہت اچھے ہیں
پریشے کہاں چپ رہتی
کیا سچ میں
اس نے محبت سے کہا
ہاں سچ میں
پریشے نے نظریں جھکا لی
اور تم میری جنت ہو پریشے
اور میری محبت بھی ہو
اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا کہ اتنے سال جس لڑکی سے میں نے محبت کی وہ تم ہو تو
میں ایک منٹ بھی تمھیں خود سے دور نہ رکھتا
پریشے نے حیرت سے اسے دیکھا
ایسے کیا دیکھ رہی ہو ریان کی جان تمھیں کیا لگتا ہے تم نہیں بتاو گی تو کیا مجھے کوٸی نہیں بتاۓ گا
کل تمھاری ڈاٸیری پڑھی تھی تو مجھے پتہ چل گیا کہ آپ ہی میری معشوکہ ہے
اس نے شرارت سے کہا
ایک بات آپ نے کس کی اجازت سے میری ڈاٸیری پڑھی
اس نے روایتی بیویوں کے انداز سے کہا
کیا مطلب تم میری بیوی ہو شونا اب بھی مجھے اجازت لینی پڑھے گی
اس نے بہادری سے کہا
اور پریشے اس کے اس انداز پر کھلکھلا کر ہنس دی
اور ساتھ ہی سر اس کے کندھوں پر ٹکا دیا
یہ کاٸنات کا ایک مکمل منظر تھا
پریشے کو اس کی محبت مل چکی تھی
اس کی دنیا مکمل تھی
❤❤❤❤
ختم شد